Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر3

کون تھی وہ؟ نتاشہ کے جانے کے بعد ادیان جب واپس چئیر پر آکر بیٹھا تبھی زین نے اس سے سُرسری سا پوچھا وہ۔۔۔بس ہے کوئی خاص۔۔ ادیان نے ریسٹورنٹ کے داخلی حصے پر دیکھ کر کھوئے ہوئے لہجے میں کہا نام کیا ہے؟ زین نے اس پر نظر جمائے پوچھا نتاشہ۔۔ کہتے ہوئے ادیان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی جسے زین ناگواری سے دیکھ رہا تھا۔۔۔اسکے چہرے پر یہ ناگواری ادیان تو نہ دیکھ پایا پر داخلی دروازے سے اندر آتے تیمور نے بغور دیکھی۔۔۔وہ نتاشہ کو گھر جاتا دیکھ واپسی یہی پر آیا تھا ادیان پر نظر رکھنے،پر اب وہ اسی کنفیوژن میں تھا کہ ادیان کے اس نئے دوست زین کا کیا چکر ہے۔۔۔ کچھ تو گڑبڑ ہے اس بندے میں۔۔۔پر جو بھی ہے زیادہ دیر تک میجر تیمور سے چھپ نہیں پائے گا۔۔۔ وہ بولتے ہوئے آخر میں کالر اکڑاتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگا تبھی اسکے نمبر پر کال آئی ہیلو۔۔۔ کچھ خبر؟ اسکی سرد آواز سے ہی تیمور نے اسے پہچان لیا نو سر۔۔۔وہ نتاشہ نامی لڑکی تو آج بھی سیدھا گھر گئی ہے اور۔۔۔ تیمور بولتے ساتھ نظر دوڑاکر وہاں دیکھنے لگا جہاں پر ادیان بیٹھا ڈنر کرتے ہوئے مسلسل مسکراکر زین سے کچھ بولے جارہا تھا تو جواب میں زین بازو باندھے صرف سنجیدہ نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اور پھر میں اس ادیان نامی آدمی پر نظر رکھنے آیا ہوں سر۔۔۔پر یہاں بھی سب کچھ نارمل ہے۔۔۔لیکن۔۔۔۔لیکن سر جہاں تک میری تحقیق مجھے بتاتی ہے وہ یہ کہ جو دِکھتا ہے ضروری نہیں کہ وہی ہو۔۔۔ سنجیدگی سے بولتے ہوئے اچانک اس میں جیسے عادی جاسوس کی روح آگئی تھی تبھی تیمور رازداری سے کہنے لگا جس پر دوسری طرف اس نے کوفت سے آنکھیں بند کی۔ بات سنو لڑکے۔۔۔جتنا پوچھا جائے صرف اتنا جواب دیا کرو۔۔۔ اسکی سخت آواز پر تیمور نے فون خود سے دور کر کے ایک نظر فون کو چہرہ بگاڑ کر دیکھا پھر خود کو نارمل کر کے واپس کان سے لگایا اوکے سر۔۔۔ اس نے آواز کو نرم بنا کر کہا پر مقابل خاموشی محسوس کر کے وہ حیران ہوا۔۔۔پھر موبائل کی اسکرین کو دیکھنے لگا کال کاٹ دی۔۔۔عزت ہی نہیں ہے تیری یار۔۔۔ خود کو بولتے ہوئے وہ مڑنے لگا تبھی ایک ٹرے لےجاتے ویٹر سے ٹکرایا یہ کیا کِیا تم نے۔۔۔ تیمور نے خود کی شرٹ پر جوس کا داغ دیکھ کر غصے میں ویٹر سے کہا میں نے کیا کِیا۔۔دیکھیے سر آپ خود ہی دوسری طرف دیکھتے ہوئے چل رہے تھے۔۔۔نقصان تو میرا ہوا ہے غصہ آپ کررہے ہیں۔۔ اس ویٹر سے بھی کہاں برداشت ہوا اتنا جوس نیچے گِرا دیکھ اوپر سے گلاس بھی ٹوٹ گئے تھے واؤ۔۔۔ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔بلاؤ اپنے مینیجر کو۔۔۔بتاتا ہوں ابھی تمہیں۔۔ تیمور نے تپ کر کہا جس پر ویٹر منہ بناتا ہوا وہاں سے گیا پھر کچھ دیر بعد ساتھ میں مینیجر کو لے کر آیا جی سر۔۔ مینیجر نے مودبانہ لہجے میں کہا جس پر تیمور اور گردن اکڑا گیا سر انہوں نے ایک تو ہمارے تین جوس کے گلاس توڑ دیے اوپر سے اب پیسے دینے کے بجائے الٹا مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں۔۔۔۔ ویٹر نے تیمور کو دیکھتے ہوئے مینیجر کو ساری بات بتائی جس پر تیمور نے اسے غصے میں گھورا کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔میری غلطی ہے۔۔ہاں۔۔۔ تیمور نے ہائپر ہوتے ہوئے پوچھا دیکھیے سر اگر آپ کی ہی غلطی ہے تو آپ کو جرمانہ بھرنا پڑے گا۔۔۔اٹس آور رُول سر۔۔ ٹوٹے ہوئے گلاس نیچے دیکھ کر مینیجر کی بھی ساری مؤدبانی پل میں اُڑن چُھو ہوئی اب وہ روکھے لہجے میں تیمور کو بولا ہاں توڑا میں نے گلاس اور نہیں دونگا اب میں پیسے کیا کر لوگے۔۔ اسکی ٹُون بدلنے پر تیمور نے اور برہم ہوتے ہوئے پوچھا سر پیسے دے دیں ورنہ پھر ہم آپ کی کار،بائیک یا جس پر بھی آپ آئیں ہیں وہ ضبط کر لینگے اور اگر آپ نے واویلہ کر کے یہاں کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تو ہم پولیس کو کال کردینگے۔۔ مینیجر کے سنجیدگی سے بولنے پر تیمور نے پہلے ویٹر اور پھر اُسے گھورا تم دونوں جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ اس نے ایک آئیبرو اٹھا کر ان دونوں سے پوچھا نہیں۔۔۔اور جاننا بھی نہیں ہے۔۔ ویٹر نے پیچھے سے کہا جس پر تیمور کا شدت سے اسے مارنے کا دل چاہا آئی ایم میجر تیمور۔۔۔سیکریٹ ایجنٹ۔۔۔اب جان گئے۔۔ اسکی بات پر مینیجر چند پل چپ ہوگیا پھر کہا یہاں پر ایسے کئی آتے ہیں جو خود کو پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔اب ہم کیا آپ کی فضول سی بات مان کر اپنا نقصان کریں۔۔ اسنے غصے میں کہا تمہیں یقین نہیں ہوتا نا۔۔۔میں ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔اور پھر دیکھنا کیسے تم دونوں کو یہاں سے فارغ کرتا۔۔۔۔ تیمور جو جیب میں اپنا آئی کارڈ نکالنے کے غرض سے ہاتھ ڈال کر مسلسل بول رہا تھا۔۔۔اچانک رکا۔۔۔جیب میں پیسوں کے علاؤہ اور کچھ نہیں تھا۔ میرا کارڈ۔۔۔ وہ سوچنے لگا کہ آخری بار اس نے کارڈ کہاں رکھا تھا۔۔۔مگر نہ یاد آنے پر اسکا رونے والا منہ بن گیا۔ سر۔۔۔آپ پیسے دے رہیں ہیں یا میں کال کروں پولیس کو۔۔۔ مینیجر کی آواز پر اس نے سوچوں سے نکلتے ہوئے اسے دیکھا جو اب سخت چتونوں سے تیمور کو گھور رہا تھا۔۔۔کارڈ تو ملا نہیں،اب اس نے پیسے دینے میں ہی عافیت جانی۔ سر۔۔ مینیجر نے اسے پھر پکارا اب کے آواز تھوڑی بلند تھی دے رہا ہوں نا۔۔ تیمور نے دانت پیستے ہوئے کہا پھر اسے پیسے ادا کر کے مینیجر اور ویٹر دونوں کو گھورتا ہوا وہاں سے نکلا عزت ہی نہیں ہے کہیں۔۔۔میرے جیسے عظیم میجر کی۔۔۔ باہر نکلتے ہوئے وہ بڑبڑارہا تھا تبھی اسکا پھر کسی کے ساتھ زور دار تصادم ہوا۔۔۔اب کی بار کوئی گلاس یا ٹرے نہیں بلکہ پوری کی پوری لڑکی گری تھی نیچے۔ تیمور نے بوکھلاکر نیچے دیکھا جہاں یمنا بیٹھی کراہ رہی تھی۔ مے آئی ہیلپ یو۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مدد کی آفر کی یمنا جو اپنا کام ختم کر کے اب نتاشہ کو اچانک آکر سرپرائز کرنا چاہتی تھی۔۔۔بیچ میں ہی تیمور سے ٹکرانے پر اسے لگا جیسے کسی لوہے سے ٹکرائی ہو۔ لوہا کھاتے ہو کیا۔۔۔فولاد نہ ہو تو۔۔۔۔اور دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا یا اندھے ہو۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر خود ہی اٹھتے ہوئے غصے میں بولی،تیمور نے بغور ایک نظر اسے دیکھا بلیک ٹائیڈز پر گرین کیپری پہنے بالوں کو پونی میں مقید کیے وہ سرخ و سفید لڑکی ابھی غصے سے لال ہورہی تھی۔ میڈم۔۔۔شاید آپ بھول رہی ہیں۔۔۔ٹکرائی آپ ہیں میں نہیں۔۔۔ وہ تپ ہی گیا اسکے ڈانٹنے پر تبھی ناگواری سے بولا کیا کہا۔۔۔میں ٹکرائی ہوں۔۔۔بولو۔۔۔میں ٹکرائی ہوں تم سے۔۔۔ وہ تلملاتے ہوئے تیمور کے بلکل قریب آکر اسکی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر پوچھنے لگی۔۔۔جبکہ دوسری طرف تیمور تو جیسے گنگ ہوگیا تھا یمنا کی کاجل سے لبریز حسین آنکھوں کو دیکھ کر۔۔۔شاید ہی اس نے کبھی اتنی حسین آنکھیں دیکھی تھیں جو کاجل کی سیاہی سے بلکل کالی چاندنی رات جیسی کالی لگ رہی تھیں۔ کچھ پوچھا ہے میں نے تم سے۔۔۔ اسکے بلکل چپ رہنے پر یمنا نے تپ کر کہا تمہاری آنکھیں۔۔۔ تیمور اسکی کالی آنکھوں کو دیکھتا ہوا بےخودی میں بولا کیا میری آنکھیں؟ وہ اسی طرح آئیبرو بھینچے اس سے پوچھی بہت خوبصورت ہیں۔۔۔ بےساختہ اسکے منہ سے نکلا تھا۔۔۔جبکہ یمنا جو تیمور کے بلکل نزدیک کھڑی تھی اسکے الفاظوں پر اچانک چند قدم پیچھے ہٹی اور حیرت سے اس لڑکے کو سر تا پیر دیکھنے لگی۔۔۔لائٹ پرپل شرٹ پر بِلو جینز پہنے آستین کو کہنیوں تک فولڈ کیے وہ ایک چارمنگ لڑکا تھا پر صرف دکھنے میں۔۔۔کیونکہ حرکتیں اسکی چھچھوروں والی لگی یمنا کو ۔۔۔۔وہ غصے میں پھٹ ہی پڑی۔ بےشرم انسان۔۔۔لڑکی دیکھی نہیں کہ چھچھورا پن شروع۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں تم جیسے لڑکوں کو کیسے ٹھیک کرنا ہوتا ہے۔۔۔رکو۔۔۔ وہ غصے میں مسلسل بولتے ہوئے اِدھر اُدھر کوئی چیز تلاشنے لگی۔۔کچھ نہ ملنے پر اس نے پتھر ہی اٹھا لیا۔۔تیمور جو مبہوت سا اسے دیکھنے میں کھویا ہوا تھا۔۔یمنا کے پتھر اٹھانے پر ہوش میں آیا۔ اےےے۔۔۔یہ کیا کررہی ہو؟ وہ بوکھلاتے ہوئے بولا ٹھہرو تم۔۔۔لوفر کہیں کے۔۔۔لڑکی کو چھیڑو گے۔۔ وہ غصے میں بول کر پتھر اُٹھائے اسکی طرف بڑھنے لگی ک۔۔۔کس نے کہا کہ میں تمہیں چھیڑ رہا ہوں۔۔۔اور شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔انگور جیسی تو ہے چھوٹی سی۔۔۔ وہ ہڑبڑا کر بچنے کے لیے بولا ساتھ ہی اپنے قدم پیچھے کرنے لگا انگور نہیں حور جیسی شکل ہے جس پر تم جیسا لنگور مرنے لگا تھا۔۔۔پر کوئی نہیں میں ابھی ٹھیک کردونگی۔۔۔تم جیسوں سے نپٹنا آتا ہے مجھے۔۔۔ وہ تیزی سے بولتے ہی اس پر پتھر پھینکنے لگی ابے۔۔۔پاگل ہے کیا۔۔۔ تیمور پھرتی سے کار کی طرف بھاگتے ہوئے چیخ کر بولا تھا۔۔۔دروازہ کھول کر بیٹھتے ہی وہ کار زن سے بھگا لے گیا۔ کچھ دور جاتے ہی اس نے کار روکی پھر گہرے سانس لینے لگا۔ کیسی خوبصورت بلا تھی یہ۔۔۔ گھبراتے ہوئے تیمور کے منہ سے نکلا پھر چھن سے آنکھوں میں اس جذباتی لڑکی کی حسین آنکھیں گھومی تو لب خودبخود مسکراہٹ میں ڈھلے خوبصورت!! وہ بڑبڑایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاہر علوی زیادہ کام ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار ہی گھر پر ہوتے اور اس وقت میں وہ اپنا تقریباً ٹائم نتاشہ کے ساتھ گزارتے تاکہ وہ اپ سیٹ نہ ہو۔۔۔ابھی بھی دوپہر کو وہ فون پر بات کرتے ہوئے نتاشہ کے کمرے میں آئے تھے مگر اسے صوفے پر بیٹھے بند ایل ای ڈی کو گھورتے دیکھ تھوڑا حیران ہوئے۔ نتاشہ۔۔۔ انہوں نے نرمی سے اسے پکارا پر وہ تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھی نتاشہ بیٹے۔۔۔ اب کی بار طاہر علوی اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولے تبھی نتاشہ چونک کر سیدھی ہوئی پاپا آپ کب آئے۔۔ وہ جو ادیان کے بارے جب سے سوچ رہی تھی اچانک طاہر علوی کو دیکھ کر بوکھلائی بیٹا ہم تو آپ ہی کے پاس ہیں۔۔۔یہ بتائیں آپ کِدھر تھیں۔۔۔ وہ اسکی بےخبری پر چوٹ کرتے ہوئے بولے تو نتاشہ کو سبکی محسوس ہوئی کوئی بات ہے کیا بیٹا۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو نتاشہ نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا نہی۔۔۔نہیں تو۔۔۔پاپا۔۔ وہ ہکلا گئی تھی۔۔۔ ہمم۔۔۔آپ کو پتا ہے جب کہ آپ جھوٹ نہیں بول پاتیں تو پھر کوشش کیوں کرتی ہیں۔۔۔ انہوں نے مسکاتے لہجے میں کہا جس پر نتاشہ نے لب دانتوں میں دبائے نظریں جھکا لیں بیٹا۔۔جو بھی بات ہے بلا جھجھک کہیے۔۔۔ہم تو دوست ہیں نا آپ کے۔۔۔ انہوں نے اسکی تھوڑی پکڑ کر محبت سے کہا جس پر نتاشہ کو تھوڑی بہت ہمت ملی۔ پاپا۔۔۔وہ۔۔میں نا۔۔میرا مطلب کہ مجھے۔۔نہیں میں۔۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ کیسے بتائے جبکہ طاہر علوی جیسا شاطر انسان اپنی بیٹی کی ایسی حالت کو نہ سمجھے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی کو پسند کرتی ہیں آپ۔۔۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں اچانک پوچھا تو نتاشہ کو لگا اسکے منہ کے الفاظ چھین کر اسکے باپ نے بول ڈالے،وہ مکمل آنکھیں کھولے انہیں دیکھنے لگی پھر جلد ہی سنبھل کر بولی آپ کو کیسے پتا۔۔۔ اسکی حیرت زدہ آواز پر طاہر علوی مسکرائے اور بولے ہم نے یہ بال دھوپ میں ہی سفید نہیں کیے بیٹا۔۔۔ انکے کہنے پر بےساختہ نتاشہ کے گال سرخ پڑگئے وہ سرجھکاگئی ویسے کیا نام ہے اسکا۔۔۔ اب کی بار انکی آواز میں شرارت گھلی تھی،نتاشہ نے سر اٹھا کر حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا ادی۔۔۔ادیان۔۔ اسکا تو نام لینا بھی اب دشوار سا لگا تھا نتاشہ کو ہممم۔۔۔نام تو اچھا ہے اب دیکھیں گے لڑکا کیسا ہے۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے جبکہ نتاشہ شاک کی کیفیت میں تھی پاپا۔۔۔مطلب آپ کو کوئی اشو نہیں۔۔۔میرا مطلب۔۔۔کہ اگر وہ آپ کو پسند نہ ہو تو۔۔۔ وہ یونہی بےیقین سی ان سے پوچھنے لگی ارے بھئی۔۔۔میری بیٹی کی پسند ہے۔۔۔ہو ہی نہیں سکتا کہ غلط ہو۔۔۔ وہ جس اعتماد سے بولے نتاشہ خوشی سے انکے گلے لگ گئی اوہ۔۔۔تھینک یو سو مچ میرے جوجو۔۔۔ اسنے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تو کب بلارہی ہیں انہیں۔۔ طاہر علوی کے اچانک پوچھنے پر نتاشہ کی مسکراہٹ تھمی۔۔وہ ان سے الگ ہوکر بیٹھی۔۔۔یہ تو اسے بھی نہیں پتا تھا۔۔۔کیونکہ ادیان کے منہ پر تو وہ اسے اتنا غلط سلت بولتی تھی پر اب کیسے کہے گی اسے کہ گھر پر آئے۔ کیا سوچنے لگ گئی پھر سے۔۔ انہوں نے پھر اسے ٹوکا تو وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی کچ۔۔۔کچھ نہیں پاپا۔۔۔۔اور میں جلد ہی ان سے بات کر کے بتاؤں گی۔۔ اس نے نرم لہجے میں کہا جس پر طاہر علوی مسکرادیے چلیے۔۔اب ہمارا گارڈن میں ٹہلنے کا مُوڈ ہورہا ہے اپنی بیٹی کے ساتھ۔۔۔ابھی ہمارے ساتھ چلیں وہیں پر۔۔ انہوں نے اسکا دھیان بٹانے کے لیے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے تو نتاشہ بھی مسکراتے ہوئے انکے ساتھ ہولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments